اجماع امت قرآن وحدیث کے بعد شرعی دلیل ہے ۔۔۔
مذکورہ بحث کی وضاحت دلائل کیساتھہ ملاحظہ کریں ۔۔۔
——
اجماع امت کی تعریف اور اہمیت
{1}
صحابہ کے کسی دینی معاملہ پر اتفاق کرلینے کو اجماع کہتے ہیں ۔۔۔
{2}
صحابہ کے بعد قرآن وحدیث اور صحابہ کے متفقہ راستہ پر چلنے والے مسلمانوں یعنی اہل حدیث کا کسی دینی معاملہ پر اتفاق کرلینے کو بھی اجماع کہتے ہیں ۔۔۔
___
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ جو شخص ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کے راستہ کے علاوہ کسی دوسرے راستہ پر چلنے لگے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے {سورہ نساء آیت 115} ۔۔
اس آیت سے واضح ہے کہ اہل ایمان یعنی صحابہ کے متفقہ راستہ اور صحابہ کے راستہ پر چلنے والے مسلمانوں کے متفقہ راستہ سے وابستہ رہنا لازم ہے اور صحابہ ومحدثین کے متفقہ راستہ سے الگ ہونا واضح طور پر گمراہی ہے ۔۔۔
—
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائیگا اور اللہ کا ہاتھہ جماعت پر ہے {مستدرک حاکم 1/116 حدیث 399 ۔۔ صحیح الاسناد} ۔۔
—
مذکورہ حدیث سے واضح ہے کہ یہ امت پچھلی امتوں کی طرح کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی کہ سب کے سب لوگ گمراہ ہوجائیں بلکہ اس امت میں ہمیشہ ایک جماعت اللہ کے حکم سے حق کیساتھہ قائم رہیگی ۔۔۔
—–
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو مسئلہ کتاب وسنت میں نہ ملے تو لوگوں {اہل حق} کا اجماع دیکھہ کر اس پر عمل کرو {مصنف ابن ابی شیبہ 7/240 روایت 22980 ۔۔ صحیح الاسناد} ۔۔
———
اہل باطل کا کسی بات پر اتفاق کرنا اجماع امت نہیں ہے
اہل باطل یعنی وہ لوگ جو قرآن وحدیث اور منہج صحابہ یعنی صحابہ کے راستہ سے الگ ہیں ان کا کسی بات پر اتفاق کرلینا شرعی دلیل نہیں بنتا بلکہ ان کا اجماع باطل ہے ۔۔۔
—-
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی نے تم پر اپنی کتاب میں یہ حکم نازل فرمایا ہے کہ جب تم کہیں سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار ہورہا ہے یا اس کا مذاق بنایا جارہا ہے تو تم ایسے لوگوں کیساتھہ مت بیٹھو جب تک وہ کوئی دوسری بات نہ کرنے لگیں ورنہ تم بھی انہیں کی طرح شمار کیے جاوْ گے بیشک اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع فرمانے والا ہے {سورہ نساء آیت 140} ۔۔۔
——-
صرف فہم صحابہ پر چلنے والوں کا اجماع معتبر ہے
قرآن وحدیث کے اسی راستہ پر چلنا ضروری ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم چلے ہیں ۔۔ کوئی آدمی بھی صحابہ رضی اللہ عنھم کے راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راستہ پر چلے ایسا آدمی غلطی اور گمراہی کے راستہ پر ہے اسی لیے ایسے لوگوں کا اجماع بھی معتبر نہیں جو فہم صحابہ سے الگ ہیں ۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالی نے صحابہ رضی اللہ عنھم کے راستہ کو معیار ہدایت بنایا ہے ۔۔۔
—
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اگر یہ لوگ تمہارے {صحابہ کے} ایمان کی طرح ایمان لائیں گے تو یہ لوگ بھی ہدایت یافتہ ہوجائیں اور اگر وہ منہ پھیرلیں تو وہ مخالفت کرنے والے ہیں اور اللہ ان کے مقابلے میں آپ کیلیے کافی ہے اور اللہ سننے جاننے والا ہے {سورہ بقرہ 137} ۔۔۔
——
قرآن وحدیث کے بعد اجماع امت شرعی دلیل ہے
جس طرح قرآن وحدیث شرعی دلیل ہے اسی طرح اجماع صحابہ اور اجماع امت بھی شرعی دلیل ہے کیونکہ اجماع امت کا شرعی دلیل ہونا قرآن اور صحیح احادیث سے واضح طور پر ثابت ہے جس کا انکار کرنا درحقیقت قرآن وحدیث کا ہی انکار کرنا ہے جیساکہ مذکورہ قرآنی دلیل یعنی سورہ نساء آیت 115 سے واضح ہے ۔۔۔
——–
کسی شخصیت کا ذاتی قول اجماع نہیں ہوتا ۔۔۔
کسی صحابی یا محدث یا اہل حق میں سے کسی مسلمان کا ذاتی قول اجماع یا دلیل نہیں کہلاتا جب تک اس بات پر اہل حق کی جماعت کا اتفاق نہ ہو کیونکہ اجماع کا معنی ہی اتفاق ہے جو جماعت کے اتفاق کے بغیر ممکن نہیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اجماع امت قرآن وحدیث کے بعد شرعی دلیل ہے
December 26, 2018